(ایجنسیز)
دنیا بھر کے قانون ساز اداروں سے متعلق اعداد و شمار سے یہ چیز سامنے آئی ہے کہ ان اداروں میں خواتین کی تعداد میں پچھلے سال کے مقابلے میں ایک اعشاریہ پانچ فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ پچھلے سال خواتین کی ان اداروں میں موجودگی کی شرح اکیس اعشاریہ آٹھ ریکارڈ کی گئی تھی۔ یہ تعداد 1995 میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے حوالے سے دوگنا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون سازی اور حکمرانی سے متعلقہ امور میں خواتین کا کردار آئندہ برسوں میں مزید وسعت پذیر ہے۔
انٹر پارلیمنٹری یونین اور یو این ویمن نے دنیا بھر کے پارلیمانی اداروں سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی مدد مرتب کردہ اپنی مشترکہ رپورٹ میں اس نئے رجحانی نشان دہی کی ہے۔ تاہم یو این ویمن کی ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جان ہنڈرا کا کہنا ہے'' اس رجحان کے باوجود دنیا کے پارلیمانی ایوانوں میں خواتین کی تعداد مردوں کے برابر لانے میں کئی عشرے لگیں گے۔''
جان ہنڈرا کے مطابق '' دنیا کے مختلف ممالک کے پارلیمانی ایوانوں میں خواتین کی نمائندگی میں اضافے کی وجوہات سیاسی جماعتوں کا تعاون اور خواتین
کی موثر تحریک بنی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا '' پارلیمانی ایوانوں میں خواتین کی مساویانہ نمائندگی کے لیے انتخابی عمل میں خواتین کی مشکلات کا ازالہ ضروری ہے، یہ رکاوٹیں جنسی امتیاز کے ماحول اور ثقافتی رویوں کی وجہ سے ہیں۔''
پارلیمانی ایوانوں میں خواتین کی شمولیت میں اضافے کی عکاس اس رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومتوں میں کابیناوں کی سطح پر خواتین کی نمائندگی سترہ اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یہ تناسب 2008 میں سولہ اعشاریہ ایک فیصد تھا۔ امریکا سے افریقہ تک ہر ملک میں کم از کم ایک خاتون وزیر بھی موجود ہے۔
امریکا میں کانگریس کی سطح پر خواتین کی نمائندگی سب سے زیادہ یعنی پچیس اعشاریہ دو فییصد ہے ، جبکہ عرب دنیا میں حالیہ برسوں کے دوران اضافہ سب سے زیادہ تناسب کے ساتھ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ اضافہ تیرہ اعشاریہ دو فیصد سے سولہ فیصد تک چلا گیا ہے۔
اس کے مقابلے میں افریقی اور مغربی ملکوں میں اضافہ بائیس اعشاریہ پانچ سے بڑھ کر چوبیس اعشاریہ چھ فیصد ہو گیا ہے۔ ایشیائی ممالک میں یہ اضافہ سولہ اعشاریہ دو فیصد سے بڑھ کر اٹھارہ اعشاریہ چار فیصد ہو گیا ہے۔